جبراً نکاح کا بیان
جبرأ نکاح کا بیان
جنوری 29, 2023
کسی شخص سے زبردستی مجبور کر کے وہ کام کروانا جس کو وہ کرنا نہ چاہتا ہو جبر واکراہ کہلاتا ہے۔ ایسے شخص کو مکرہ کہتے ہیں۔ ابو منصور محمد بن احمد مکرہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں:
وَأمْرةٌ كَرِيْهٌ: مَكْرُوْهٌ، وَامْرَأَةٌ مُسْتَكْرَهَةٌ إِذا غُصِبَتْ نَفْسُهَا، وَأَكْرَهْتُ فلَاناً: حَمَلْتُهُ عَلَى أَمْرٍ هُوَلَهُ كَارِهٌ، وَالْكَرِيْهَةُ الشِدَّةِ فِي الْحَرْبِ، وَكَذَلِكَ كَرَايِهُ الدَّهْرِ: نَوَازِلُ الدَّهْرِ.
مکروہ وناپسندیدہ بات، عورت کو مکرہ کیا گیا، جب اس کے نفس کو غصب کیا جائے، میں نے فلاں کو مکرہ کیا، اسے اس کی ناپسندیدہ بات پر مجبور کیا۔ جنگ میں شدّت، یونہی زمانے کے مصائب وآلام۔
الأزهري، تهذيب اللغة، 6: 11، بيروت: دار إحياء التراث العربي
صاحبِ العین خلیل بن احمد الفراھیدی اور ابن منظور الافریقی بیان کرتے ہیں:
وَأَكْرَهْتُهُ حَمَلْتُهُ عَلَى أَمْرٍ وَّهُوَ كَارِهٌ.
میں نے اسے ایسے کام پر مجبور کیا جس کو وہ ناپسند کرتا تھا۔
فراهيدي، العين، 3: 376، دار ومكتبة الهلال
ابن منظور، لسان العرب، 13: 535، بيروت: دار صادر
دینِ اسلام میں جبرواکراہ نہیں ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
دین میں کوئی زبردستی نہیں۔
البقرة، 2: 256
حدیث مبارکہ میں بھی زبردستی کروائے گئے امور کی نفی کی گئی ہے:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنَّ اللَّهَ وَضَعَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأَ، وَالنِّسْيَانَ، وَمَا اسْتُكْرِهُوا عَلَيْهِ.
حضرت ابن عباس ضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے میری امت سے خطاء، سہو اور جبر و اکراہ معاف فرمایا ہے۔
(امام حاکم فرماتے ہیں: یہ حدیث امام بخاری وامام مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح ہے لیکن انہوں نے اس کو روایت نہیں کیا)
ابن ماجه، السنن، كتاب الطلاق، باب طلاق المكره والناسي، 1: 659، رقم: 2045، بيروت: دارالفكر
حاكم، المستدرك على الصحيحين، 2: 216، رقم: 2801، بيروت: دار الكتب العلمية
بيهقي، السنن، كتاب الإقرار، باب من لا يجوز إقراره، 7: 356، 14871، مكة المكرمة: مكتبة دارالباز
مذکورہ بالا دلائل سے معلوم ہوا کہ اسلام میں جبر کو بالکل پسند نہیں کیا گیا اور نہ ہی جبرواکراہ سے کروائے گئے امور قابلِ قبول ہیں۔ اور جبراً کئے گئے نکاح سے تو ویسے بھی مقصدِ نکاح فوت ہو جاتا ہے کیونکہ میاں بیوی ایک دوسرے کے ساتھ پیار محبت کی بجائے نفرت کریں گے تو زندگی عذاب بن کر رہ جائے گی اور جب جوڑا ایک دوسرے سے سکون نہیں پائے گا تو نکاح بے مقصد ہو جائے گا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَo
اور یہ (بھی) اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے پیدا کیے تاکہ تم ان کی طرف سکون پاؤ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی، بے شک اس (نظامِ تخلیق) میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں۔
الروم، 30: رقم: 6546
أبو داود، السنن، كتاب النكاح، باب في الثيب، 2: 233، رقم: 2101، بيروت: دار الفكر
دارمي، السنن، كتاب النكاح، باب الثيب يزوجها أبوها وهي كارهة، 2: 187، رقم: دار الكتاب العربي
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لڑکی کی مرضی کے خلاف باپ کا کیا ہوا نکاح منسوخ فرما کر لڑکی کی پسند ضروری قرار دے دی۔ اور یہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جبری شادی کے عدم جواز پر ٹھوس دلیل ہے۔ اس موضوع پر متعدد احادیث مبارکہ بیان کی گئی ہیں:
عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ: جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبِي وَنِعْمَ الْأَبُ هُوَ، خَطَبَنِي إِلَيْهِ عَمُّ وَلَدِي فَرَدَّهُ، وَأَنْكَحَنِي رَجُلًا وَأَنَا كَارِهَةٌ. فَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَبِيهَا، فَسَأَلَهُ عَنْ قَوْلِهَا، فَقَالَ: صَدَقَتْ، أَنْكَحْتُهَا وَلَمْ آلُهَا خَيْرًا. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا نِكَاحَ لَكِ، اذْهَبِي فَانْكِحِي مَنْ شِئْتِ.
أَنْكَحَهُمَا أَبُوهُمَا وَهُمَا كَارِهَتَانِ , فَرَدَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِكَاحَهُمَا.
حضرت عبد اللہ بن عباس ضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بالغہ (کنواری) اور بیوہ (یا طلاق یافتہ) عورتوں کے نکاح اس وجہ سے فاسد فرما دئیے کہ اُن کے والدین نے اُن کے نکاح ان کی مرضی کے خلاف کر دئیے تھے، لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن دونوں کے نکاح کو رَدّ فرما دیا۔
دارقطبي، السنن، كتاب النكاح، 3: 234، رقم: 53، بيروت: دار المعرفة
بيهقي، السنن الكبرى، كتاب النكاح، باب ما جاء في إنكاح الآباء الأبكار، 7: 117
حضرت یحییٰ بن سعید نے قاسم بن محمد بن ابو بکر سے روایت کی ہے:
أَنَّ امْرَأَةً مِنْ وَلَدِ جَعْفَرٍ، تَخَوَّفَتْ أَنْ يُزَوِّجَهَا وَلِيُّهَا وَهِيَ كَارِهَةٌ، فَأَرْسَلَتْ إِلَى شَيْخَيْنِ مِنَ الأَنْصَارِ: عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَمُجَمِّعٍ ابْنَيْ جَارِيَةَ، قَالاَ: فَلاَ تَخْشَيْنَ، فَإِنَّ خَنْسَاءَ بِنْتَ خِذَامٍ أَنْكَحَهَا أَبُوهَا وَهِيَ كَارِهَةٌ، فَرَدَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلِكَ.
حضرت جعفر طیار کی اولاد سے ایک عورت کو اندیشہ ہوا کہ اس کا ولی اس کا نکاح کر دے گا جبکہ وہ اس نکاح کو ناپسند کرتی تھی۔ چنانچہ اس نے انصار کے دو بزرگوں یعنی حضرت عبدالرحمن اور حضرت مجمع کے لیے پیغام اعانت بھیجا جو حضرت جاریہ کے صاحبزادے تھے۔ دونوں حضرات نے کہا کہ تم نہ ڈرو کیونکہ خنسا بنت خذام کا نکاح اس کے والد نے کر دیا تھا اور وہ اس نکاح کو ناپسند کرتی تھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس نکاح کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔
بخاري، الصحيح، كتاب الحيل، باب في النكاح، 6: 2555، رقم: 6568
ایک روایت میں ہے:
عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، قَالَ: فَرَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ امْرَأَةٍ وَزَوْجِهَا وَهِيَ بَكْرٌ أَنْكَحَهَا أَبُوهَا وَهِيَ كَارِهَةٌ.
حضرت عطاء بن ابی رباح تابعی سے (مرسلاً) مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک بالغہ عورت اور اس کے خاوند کے مابین تفریق کروا دی کیونکہ اس کے باپ نے (اپنی مرضی سے) اس کا نکاح کیا تھا اور وہ اس خاوند کو ناپسند کرتی تھی۔
دارقطبي، السنن، كتاب النكاح، 3: 234، رقم: 52
مذکورہ بالا احادیث مبارکہ میں واضح اور آسان الفاظ میں لڑکی کی مرضی کے خلاف کئے گئے نکاح کو ردّ کیا گیا ہے اور لڑکی کو نکاح میں اختیار دیا گیا ہے۔ اگر سوال میں لکھی ہوئی صورتحال واقعتاً درست ہے اور لڑکی کا نکاح جبراً کیا گیا ہے تو وہ نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہوا کیونکہ باپ کا کیا ہوا جبری نکاح بھی قابلِ قبول نہیں ہے جبکہ مذکورہ لڑکی کا تو نکاح کرنے والے چچا اور پھوپھی ہیں جن کو نکاح کرنے کا حق ہی حاصل نہیں ہے۔ لہٰذا مذکورہ لڑکی قانونی اقدامات کے بعد جہاں چاہے مرضی سے دستور کے مطابق نکاح کر سکتی ہیں۔
۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں