نماز

نماز

جنوری 19, 2023

   






نماز


    


صلوٰۃ " (نماز) کے لغوی معنی "دعا" کے ہیں۔ قرآن میں فرمانِ اللہ ہے:






نماز


خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ


اے پیغمبر! ان لوگوں کے اموال میں سے صدقہ وصول کرلو جس کے ذریعے تم انہیں پاک کردو گے اور ان کے لیے باعثِ برکت بنو گے، اور اُن کے لیے دعا کرو۔ یقینا! تمہاری دعا ان کے لیے سراپا تسکین ہے، اور اللہ ہر بات سنتا اور سب کچھ جانتا ہے




— 




جبکہ فرمانِ نبوی ہے:




” اذا دعى أحدكم فليجب فاِن كان صائماً فليصلِ و اِن كان مفطراً فليطعم [1]


ترجمہ: جب تم میں سے کسی کو دعوت دی جائے تو وہ اسے قبول کرلے پھر اگر وہ روزے سے ہو تو دعا کردے اور اگر روزے سے نہ ہو تو (طعام) کھالے “


اور اللہ کی جانب سے "صلوٰۃ" کے معنی بہترین ذکر کے ہیں جبکہ ملائکہ کی طرف سے "صلوٰۃ" کے معنی دعا ہی کے لیے جائیں گے۔ قرآن میں لکھا ہے:




إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا


بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی اُن پر درود بھیجو، اور خوب سلام بھیجا کرو


فلسفۂ نماز


ترميم


اسلامی قوانین اور دساتیر کے مختلف اور متعدد فلسفے اور اسباب ہیں جن کی وجہ سے انہیں وضع کیا گیا ہے۔ ان فلسفوں اور اسباب تک رسائی صرف وحی اور معدن وحی کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔ قرآن مجید اور معصومین علیہم السلام کی احادیث میں بعض قوانین اسلامی کے بعض فلسفہ اور اسباب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ انہیں دستورات میں سے ایک نماز ہے جو ساری عبادتوں کا مرکز، مشکلات اور سختیوں میں انسان کے تعادل و توازن کی محافظ، مومن کی معراج، انسان کو برائیوں اور منکرات سے روکنے والی اور دوسرے اعمال کی قبولیت کی ضامن ہے۔ اللہ اس سلسلہ میں ارشاد فرماتے ہیں :




وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي


میری یاد کے لیے نماز قائم کرو۔


— 




اس آیت کی روشنی میں نماز کا سب سے اہم فلسفہ یادِ خدا ہے اور یادِ خدا ہی ہے جو مشکلات اور سخت حالات میں انسان کے دل کو آرام اور اطمینان عطا کرتی ہے ۔




أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ


آگاہ ہو جاؤ کہ یادِ خدا سے دل کو آرام اور اطمینان حاصل ہوتا ہے۔




— 




رسول نے بھی اسی بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے :




” نماز اور حج و طواف کو اس لیے واجب قرار دیا گیا ہے تاکہ ذکرِ خدا ( یادِ خدا ) محقق ہو سکے۔ “


علی بن ابی طالب فلسفۂ نماز کو اس طرح بیان فرماتے ہیں :




” خدا وند عالم نے نمازکو اس لیے واجب قرار دیا ہے تاکہ انسان تکبر سے پاک و پاکیزہ ہو جائے ۔ نماز کے ذریعے خدا سے قریب ہو جاؤ ۔ نماز گناہوں کو انسان سے اس طرح گرا دیتی ہے جیسے درخت سے سوکھے پتے گرتے ہیں،نماز انسان کو ( گناہوں سے) اس طرح آزاد کر دیتی ہے جیسے جانوروں کی گردن سے رسی کھول کر انہیں آزاد کیا جاتا ہے رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ “


فاطمہ بنت رسول اللہ محمد مسجد نبوی میں اپنے تاریخی خطبہ میں اسلامی دستورات کے فلسفہ کو بیان فرماتے ہوئے نماز کے بارے میں اشارہ فرماتی ہیں:




” خدا وند عالم نے نماز کو واجب قرار دیا تاکہ انسان کو کبر و تکبر اور خود بینی سے پاک و پاکیزہ کر دے۔ “


ہشام بن حکم نے جعفر صادق سے سوال کیا : نماز کا کیا فلسفہ ہے کہ لوگوں کو کاروبار سے روک دیا جائے اور ان کے لیے زحمت کا سبب بنے؟




انہوں نے اس کے جواب میں فرمایا:


نماز کے بہت سے فلسفے ہیں انہیں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ پہلے لوگ آزاد تھے اور خدا و رسول کی یاد سے غافل تھے اور ان کے درمیان صرف قرآن تھا امت مسلمہ بھی گذشتہ امتوں کی طرح تھی کیونکہ انہوں نے صرف دین کو اختیار کر رکھا تھا اور کتاب اور انبیاء کو چھوڑ رکھا تھا اور ان کو قتل تک کر دیتے تھے ۔ نتیجہ میں ان کا دین پرانا (بے روح) ہو گیا اور ان لوگوں کو جہاں جانا چاہیے تھا چلے گئے۔ خدا وند عالم نے ارادہ کیا کہ یہ امت دین کو فراموش نہ کرے لہذا اس امت مسلمہ کے اوپر نماز کو واجب قرار دیا تاکہ ہر روز پانچ بار آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یاد کریں اور ان کا اسم گرامی زبان پر لائیں اور اس نماز کے ذریعہ خدا کو یاد کریں تاکہ اس سے غافل نہ ہوں اور اس خدا کو ترک نہ کر دیا جائے۔ “


علی رضا فلسفۂ نماز کے سلسلہ میں یوں فرماتے ہیں :




” نماز کے واجب ہونے کا سبب،خدا وند عالم کی خدائی اور اسکی ربوبیت کا اقرار، شرک کی نفی اور انسان کا خداوند عالم کی بارگاہ میں خشوع و خضوع کے ساتھ کھڑا ہونا ہے۔ نماز گناہوں کا اعتراف اور گذشتہ گناہوں سے طلب عفو اور توبہ ہے۔ سجدہ، خدا وند عالم کی تعظیم و تکریم کے لیے خاک پر چہرہ رکھنا ہے۔ “


نماز سبب بنتی ہے کہ انسان ہمیشہ خدا کی یاد میں رہے اور اسے بھولے نہیں، نافرمانی اور سرکشی نہ کرے۔ خشوع و خضوع اور رغبت و شوق کے ساتھ اپنے دنیاوی اور اخروی حصہ میں اضافہ کا طلب گار ہو۔ اس کے علاوہ انسان نماز کے ذریعہ ہمیشہ اور ہر وقت خدا کی بارگاہ میں حاضر رہے اور اس کی یاد سے سرشار رہے۔ نماز گناہوں سے روکتی اور مختلف برائیوں سے منع کرتی ہے سجدہ کا فلسفہ غرور و تکبر، خودخواہی اور سرکشی کو خود سے دور کرنا اور خدائے وحدہ لا شریک کی یاد میں رہنا اور گناہوں سے دور رہنا ہے۔




نماز عقل و وجدان کے آئینہ میں


ترميم


اسلامی حق کے علاوہ کہ جو مسلمان اسلام کی وجہ سے ایک دوسرے کی گردن پر رکھتے ہیں ایک دوسرا حق بھی ہے جس کو انسانی حق کھا جاتا ہے جو انسانیت کی بنا پر ایک دوسرے کی گردن پر ہے۔ انہیں انسانی حقوق میں سے ایک حق، دوسروں کی محبت اور نیکیوں اور احسان کا شکر یہ اداکرنا ہے اگر چہ مسلمان نہ ہوں۔ دوسروں کے احسانات اور نیکیاں ہمارے اوپر شکریے کی ذمہ داری کو عائد کرتی ہیں اور یہ حق تمام زبانوں، ذاتوں، ملتوں اور ملکوں میں یکساں اور مساوی ہے۔ لطف اور نیکی جتنی زیادہ اور نیکی کرنے والا جتنا عظیم و بزرگ ہو شکر بھی اتنا ہی زیادہ اور بہتر ہونا چاہیے۔




کیا خدا سے زیادہ کوئی اور ہمارے اوپر حق رکھتا ہے؟ نہیں۔ اس لیے کہ اس کی نعمتیں ہمارے اوپربے شمار ہیں اور خود اس کا وجود بھی عظیم او ر فیاض ہے۔ خدا وند عالم نے ہم کو ایک ذرے سے تخلیق کیا اور جو چیز بھی ہماری ضروریات زندگی میں سے تھی جیسے، نور و روشنی، حرارت، مکان، ہوا، پانی، اعضاء و جوارح، غرائز و قوائے نفسانی، وسیع و عریض کائنات، پودے و نباتات، حیوانات، عقل و ہوش اور عاطفہ و محبت وغیرہ کو ہمارے لیے فراہم کیا۔

ہماری معنوی تربیت کے لیے انبیاء کو بھیجا، نیک بختی اور سعادت کے لیے آئین وضع کیے، حلال و حرام میں فرق واضح کیا۔ ہماری مادی زندگی اور روحانی حیات کو ہر طرح سے دنیاوی اور اخروی سعادت حاصل کرنے اور کمال کی منزل تک پہنچنے کے وسائل فراہم کیے۔ خدا سے زیادہ کس نے ہمارے ساتھ نیکی اور احسان کیا ہے کہ اس سے زیادہ اس حق شکر کی ادائیگی کا لائق اور سزاوار ہو۔ انسانی وظیفہ اور ہماری عقل و وجدان ہمارے اوپر لازم قرار دیتی ہیں کہ ہم اس کی ان نعمتوں کا شکر ادا کریں اور ان نیکیوں کے شکرانہ میں اس کی عبادت کریں اور نماز ادا کریں۔ چونکہ وہ ہمارا خالق ہے، لہذا ہم بھی صرف اسی کی عبادت کریں اور صرف اسی کے بندے رہیں اور مشرق و مغرب کے غلام نہ بنیں۔




نماز خدا کی شکر گزاری ہے اور صاحب وجدان انسان نماز کے واجب ہونے کو درک کرتا ہے۔ جب ایک کتے کو ایک ہڈی کے بدلے میں جو اس کو دی جاتی ہے حق شناسی کرتا ہے اور دم ہلاتا ہے اور اگر چور یا اجنبی آدمی گھر میں داخل ہوتا ہے تو اس پر حملہ کرتا ہے تو اگر انسان پروردگار کی ان تمام نعمتوں سے لاپرواہ اور بے توجہ ہو اور شکر گزار ی کے جذبہ سے جو نماز کی صورت میں جلوہ گر ہوتا ہے بے بہرہ ہو تو کیا ایسا انسان قدردانی اور حق شناسی میں کتے سے پست اور کمتر نہیں ہے؟




فضیلت نماز از روئے احادیث


ترميم


حمزہ بن حبیب صحابی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کہتے ہیں: میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نماز کے بارے میں سوال کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کے خواص، فوائد اور اسرار کے بارے میں اس طرح فرمایا:




” نماز دین کے قوانین میں سے ایک قانون ہے۔ پروردگار کی رضا و خوشنودی نماز میں ہے۔ نماز انبیاء علیہم السلام کا راستہ ہے۔ نمازی، محبوب ملائکہ ہے۔ نماز ہدایت، ایمان اور نور ہے۔ نماز روزی میں برکت، بدن کی راحت، شیطان کی ناپسندی اور کفار کے مقابلہ میں اسلحہ ہے۔ نماز دعا کی اجابت اور اعمال کی قبولیت کا ذریعہ ہے۔ نماز نمازی اور ملک الموت کے درمیان شفیع ہے۔ نماز قبر میں انسان کی مونس، اس کا بستر اور منکر و نکیر کا جواب ہے۔ نماز قیامت کے دن نمازی کے سرکا تاج، چہرے کا نور، بدن کا لباس اور آتشِ جہنم کے مقابلہ میں سپر ہے۔ نماز پل صراط کا پروانہ، جنت کی کنجی، حوروں کا مہر اور جنت کی قیمت ہے۔ نماز کے ذریعہ بندہ بلند درجہ اوراعلی مقام تک پہنچتا ہے اس لیے کہ نماز تسبیح و تہلیل، تمجید و تکبیر، تمجید و تقدیس اور قول و دعا ہے۔ “


نماز کی اقسام


ترميم


فرض نمازیں


ترميم


اللہ تعالٰی نے شب معراج کی رات امت محمدی پر پانچ درجِ ذیل نمازیں فرض کیں۔




فجر (صبح کی نماز)


ظہر (دوپہر کی نماز)


عصر (سہ پہر کی نماز)


مغرب (غروب آفتاب کے بعد کی نماز)


عشاء (رات کی نماز)


نفل نمازیں


ترميم


اصل مضمون: سنت نماز

 ہیں اور لوگوں کو دکھاتے ہیں اور بہت کم اللہ کو یاد کرتے ہیں۔





شکر گزاری کا بہترین ذریعہ


ترميم


منعم (نعمت دینے والے) کا شکر ادا کرنا ہر انسان بلکہ ہر حیوان کی طبیعت میں شامل ہے۔ اس لیے کہ شکر گزاری نعمت دینے والے کی محبت اور نعمت و برکت میں اضافہ کا سبب ہے۔ شکر کبھی زبانی ہوتا ہے اور کبھی عملی۔ نماز ایک عبادت اور خدا کی نعمتوں پر اظہار شکر ہے جو زبانی اور عملی شکر کا ایک حسین مجموعہ ہے۔




میزان عمل


ترميم


رسول خدا فرماتے ہیں:




” الصلوٰۃ میزان


ترجمہ: نماز ترازو ہے۔ “


جعفر صادق فرماتے ہیں :




” اول ما یحاسب بہ العبد الصلوۃ فاذا قبلت قبل سائر عملہ و اذا ردت ردّ علیہ سائر عملہ


ترجمہ: سب سے پہلے انسان سے آخرت میں نماز کے بارے میں پوچھا جائے گا اگر نماز قبول کر لی گئی تو تمام اعمال قبول کرلیے جائیں گے اور اگر رد کر دی گئی تو دوسرے سارے اعمال رد کر دیئے جائیں گے۔ “


مندرجہ بالا فرامین کی روشنی میں نماز دوسری عبادتوں کی قبولیت کے لیے میزان و ترازو کے مانند ہے نماز کو اس درجہ اہمیت کیوں نہ حاصل ہو جبکہ نماز دین کی علامت و نشانی ہے۔




ہر عمل نما ز کا تابع


ترميم


چونکہ نماز دین کی بنیاد اور اس کا ستون ہے۔عمل کی منزل میں بھی ایسا ہی ہے کہ جو شخص نماز کو اہمیت دیتا ہے وہ دوسرے اسلامی دستورات کو بھی اہمیت دے گا اور جو نماز سے بے توجہی اور لاپرواہی کرے گا وہ دوسرے اسلامی قوانین سے بھی لا پرواہی برتے گا۔ گویا نماز اور اسلام کے دوسرے احکام کے درمیان لازمہ اور ایک طرح کا رابطہ پایا جاتا ہے۔


چونکہ انسان جائز الخطا ہے اور کبھی کبھی چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے گناہ کا مرتکب ہو جاتا ہے اور ہر گناہ انسان کے دل پر ایک تاریک اثر چھوڑ جاتا ہے جو نیک کام کے انجام دینے کی رغبت اور شوق کو کم اور گناہ کرنے کی طرف رغبت اور میل کو زیادہ کر دیتا ہے۔ ایسی حالت میں عبادت ہی ہے جو گناہوں کے ذریعہ پیدا ہونے والی تیرگی اور تاریکی کو زائل کر کے دل کو جلاء اور روشنی دیتی ہے۔ انہیں عبادتوں میں سے ایک نماز ہے۔ خدا وندعالم نے فرماتا ہے :




إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ “


نماز قائم کرو کہ بے شک نیکیاں گناہوں کو نیست و نابود کر دیتی ہیں بے شک نماز گذشتہ گناہوں سے ایک عملی توبہ ہے اور پروردگار اس آیت میں گنہگاروں کو یہ امید دلا رہا ہے کہ نیک اعمال اور نماز کے ذریعہ تمہارے گناہ محو و نابود ہو سکتے ہیں۔




— 


شیطان کو دفع کرنے کا وسیلہ


ترميم


شیطان جو انسان کا دیرینہ دشمن ہے اور جس نے بنی آدم کو ہر ممکنہ راستہ سے بہکانے اور گمراہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے، مختلف راستوں، حیلوں اور بہانوں سے انسان کو صراط مستقیم سے منحرف کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر کچھ چیزیں ایسی ہیں جو اس کی تمام چالبازیوں پر پانی پھیر دیتی ہیں۔ انہیں میں سے ایک نماز ہے۔ رسول اکرم نے فرماتے ہیں :




” لا یزال الشیطان یرعب من بنی آدم ما حافظ علی الصلوات الخمس فاذا ضیعھن تجرء علیہ و اوقعہ فی العظائم


ترجمہ: جب تک اولاد آدم نمازوں کو پابندی اور توجہ کے ساتھ انجام دیتی رہتی ہے اس وقت تک شیطان اس سے خوف زدہ رہتا ہے لیکن جیسے ان کو ترک کرتی ہے شیطان اس پر غالب ہو جاتا ہے اور اس کو گناہوں کے گڑھے میں دھکیل دیتا ہے۔ “


دافع بلاء


ترميم


نمازی کو خدا، انبیاء علیہم السلام اور ائمہ اطہار علیہم السلام کے نزدیک ایک خاص درجہ و مقام حاصل ہے جس کی وجہ سے خدا وند عالم دوسرے لوگوں پر برکتیں نازل کرتا ہے اور ان سے بلاؤں اور عذاب کو دور کرتا ہے۔ جیسا کہ حدیث قدسی میں خدا وند عالم فرماتا ہے :




” لولا شیوخ رکع و شباب خشع و صبیان رضع وبھائم رتع لصبت علیکم العذاب صباً


ترجمہ: اے گنہگار و! اگر بوڑھے نمازی، خاشع جوان، شیرخوار بچے اور چرنے والے چوپائے نہ ہوتے تو میں تمہارے گناہوں کی وجہ سے تم پر سخت عذاب نازل 


کرتا


۔


 






 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

واقعہ ہابیل وقابیل

شان نزول اور سوره التوبہ

قصہ ایوب /صبر ایوب