اصحاب کہف


اصحاب کہف

جنوری 19, 2023

 اصحاب کہف کو غار کے لوگ بھی کہا جاتا ہے۔ ان کا ذکر قرآن پاک کی اٹھارویں سورہ کہف میں بھی آیا ہے۔ 






اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْكَہْفِ وَالرَّقِيْمِ كَانُوْا مِنْ اٰيٰتِنَا عَجَــبًا الرقیم۔ حضرت مرہؒ سے الرقیم کے بارے پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا : کعب کا خیال ہے کہ یہ وہ گاؤں ہے جس سے وہ اصحاب نکلے تھے۔ حضرت مجاہدؒ نے کہا ہے : الرقیم سے مراد وادی ہے۔ اور حضرت سدی ؒ نے کہا ہے کہ الرقیم سے مراد وہ چٹان ہے جو اس غار پر تھی۔ اور ابن زیدؒ نے کہا ہے : الرقیم وہ کتاب ہے جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے ہم پر غالب کردیا، لیکن اس کے واقعہ کی ہمارے سامنے وضاحت نہ کی اور ایک گروہ نے کہا ہے : الرقیم سے مراد وہ تحریر ہے جو تانبے کی تختی میں لکھی ہوئی تھی۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے کہا ہے : تانبے کی ایک تختی میں قوم کفار نے ان نوجوانوں کا واقعہ لکھا تھا جو ان سے بھاگے تھے اور انہوں نے اسے ان کی تاریخ بنا دیا، انہوں نے ان کے گم ہونے کا وقت ذکر کیا، ان کی تعداد ذکر کی ہے کہ وہ کتنے تھے اور یہ بھی بیان کیا گیا کہ وہ کون تھے ؟ اور اسی طرح فراء نے کہا ہے، انہوں نے بیان کیا ہے : رقیم تانبے کی ایک تختی ہے جس میں ان کے اسماء ان کے نسب، ان کا دین اور جس سے وہ بھاگے تھے سب لکھا ہوا تھا۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : ان روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایسی قوم سے تھے جو واقعات اور حوادث کی تاریخ لکھتے تھے، اور یہ مملکت کی فضیلت ہے اور یہ مفید کام ہے۔ اور یہ اقوال الرقیم سے ماخوذ ہیں اور اسی سے “ کتاب مرقوم ” ( لکھی ہوئی کتاب) ہے۔ [1]




اصحاب کہف کون تھے




یہ چند نوجوان ایک ظالم بادشاہ دقیانوس کے زمانہ میں تھے، بادشاہ غالی متعصب اور بت پرست تھا، اور جبرو اکراہ کے ذریعہ بت پرستی کی اشاعت کرتا تھا ان نوجوانوں نے سچادین قبول کرلیا تھا، ان نوجوانوں کا تعلق اونچے گھرانوں اور عمائدین سلطنت سے تھا، حق تعالیٰ نے ان کو ایمان کی دولت سے نوازا تھا، یہ نوجوان کس مذہب پر تھے ؟ اس میں علماء کا اختلاف ہے بعض کا خیال ہے کہ دین مسیحی پر تھے، لیکن علامہ ابن کثیرؒ نے مختلف قرائن سے اس بات کو ترجیح دی ہے کہ اصحاب کہف کا قصہ مسیح (علیہ السلام) سے پہلے کا ہے مگر صحیح اور راجح بات یہ ہے کہ یہ واقعہ پہلی صدی عیسوی کا ہے۔ ۔ غرض کہ ان نوجوانوں کو شاہی دربار میں طلب کیا گیا ان نوجوانوں نے بے جھجک بغیر کسی خوف وہراس کے ظالم بادشاہ کے روبرو اپنے ایمان کا اعلان کردیا، اور اپنی ایمانی جرأت سے لوگوں کو حیرت زدہ کردیا، ارشاد ربانی ہے " اور ہم نے ان کے دل اس وقت مضبوط کر دئیے جب وہ دربار میں بادشاہ کے روبرو جواب دہی یا دعوت دین دینے کے لیے کھڑے ہوئے تھے، تو انہوں نے اپنے پروردگار سے یوں دعا کی، اے ہمارے پروردگار تو ہی ہے جو آسمانوں اور زمینوں کا پروردگار ہے ہم تجھ کو چھوڑ کر کسی غیر کی بندگی نہ کریں گے، اور اگر ہم ایسا کریں تو یقیناً ہم بہت بے جا بات کرنے والے ہونگے۔ یہ ہماری قوم جو معبود حقیقی کو چھوڑ کر دوسرے فرضی معبودوں کو اختیار کئے ہوئے ہے ۔یہ ان کے معبود حقیقی ہونے پر کوئی واضح دلیل کیوں پیش نہیں کرتی ؟ لہٰذا اس سے بڑا ظالم کوئی ہو ہی نہیں سکتا جو اللہ پر بہتان باندھے نوجوانوں کی یہ بات سن کر بادشاہ کو ان کی نوجوانی پر کچھ رحم آیا اور کچھ دیگر مشاغل مانع ہوئے اور سب سے اہم بات یہ کہ وہ عمائدین سلطنت اور بڑے گھرانوں کے چشم چراغ تھے اس لیے یک لخت ان پر ہاتھ ڈالنا مصلحت کے خلاف تھا اس لیے ان کو چند روز کی مہلت دے دی، تاکہ وہ اپنے معاملہ میں غور کرلیں۔ ادھر یہ نوجوان دربار سے نکل کر مشورہ کے لیے بیٹھ گئے، اور یہ طے کیا کہ اب اس شہر میں قیام خطرہ سے خالی نہیں، مناسب یہ ہے کہ کسی قریبی 


غار میں روپوش ہوجائیں، اور واپسی کے لیے کسی 

 سات، اور ہر ایک کے بعد کتے کو شمار کیا گیا ہے ۔[11] ۔ صحاب کہف کے نامرميم


تفسیری اور تاریخی روایات میں نام مختلف بیان کئے گئے ہیں ان میں اقرب وہ روایت ہے جس کو طبرانی نے معجم الکبیر میں بسند صحیح بیان کیا ہے میری تحقیق کے مطابق سب سے زیادہ صحیح نام معلوم ہوتے ہیں۔(1)مکسلمینا (2)تملیخا، (3)مشلینا، (4)مرنوش، (5)دبرنوش، (6)شاذنوش اور چڑواہے کا نام (7)کعسطیطیونس تھا۔کتے کا نام قطمیر تھا۔شہر کانام افسوس تھا۔اور پھر جس کو طبرانی نے معجم اوسط میں بسند صحیح حضرت عبداللہ عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ ان کے نام یہ ہیں : (١) مُکْسَلْمِیْنَا (٢) تَمْلِیْخَا (٣) مَرْطُوْنَسْ (٤) سَنُوْنَسْ (٥) سَارِیْنُوتَسْ (٦) ذُو نَوَاس (٧) کَعَسْطَطْیُوْنَس۔ اسماء اصحاب کہف بعض حضرات نے یہ بتائے ہیں، جیسا کہ صاوی و حاشیہ علی الجلالین میں مذکور ہیں : (١) مَکْسَلْمِیْنَا (٢) تَمْلِیخَا (٣) مَرْطونَسْ (٤) نَیْنُوْنَسْ (٥) سَارْبُولَسْ (٦) ذُونواس (٧) فَلْیَسْتطیُونَسْ ، یہ آخری شخص چرواہا تھا جو کہ راستہ سے ساتھ ہوگیا تھا اس کے ساتھ ایک کتا بھی تھا جس کا نام قطمیر بتایا گیا ہے ۔[12]۔[13] جبکہ معجم الاوسط میں ابن عباس ؓ کا قول نقل ہے۔ أَنَا مِنْ أُولَئِكَ الْقَلِيلِ مكسمليثا، وَتمليخا وَهُوَ الْمَبْعُوثُ بِالْوَرِقِ إِلَى الْمَدِينَةِ، وَمرطولس، وَيثبونس، وَذرتونس، وَكفاشطيطوس، وَمنطنواسيسوس وَهُوَ الرَّاعِي وَالْكَلْبُ اسْمُهُ قِطْمِيرُ[14] [15]






   

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

واقعہ ہابیل وقابیل

شان نزول اور سوره التوبہ

قصہ ایوب /صبر ایوب