طلاق کے احکام
طلاق کے احکام
جنوری 29, 2023
طلاق کا لفظی معنی ترک کرنا یا چھوڑ دینا ہے، اسلامی فقہ میں اس سے مراد 2 گواہوں کی موجودگی میں اپنی بیوی (منکوحہ) کو قید نکاح سے آزاد کرنے کا اعلان کرنا ہے، عام ازدواجی زندگی کی اصطلاحات میں بھی اس سے مراد میاں بیوی کے نکاح کی تنسیخ ہے۔
طلاق کی اقسام
طلاق کے حوالے سے مختلف علما نے اس کی مختلف اقسام بیان کی ہیں۔ محمد اکبر [1] کے مطابق اس کی 6 درج ذیل اقسام ہیں۔
طلاق بائن
طلاق مغلظہ
طلاق رجعی
طلاق غیرموثر
طلاق موثر
طلاق مغلظہ کبیرہ
اہل تشیع کے نزدیک طلاق
اہل تشیع میں طلاق دینا ایک انتہائی قبیح کام سمجھا جاتا ہے۔ اس کی اقسام کچھ مختلف ہیں۔ اہل تشیع میں طلاق کی کئی تقسیم بندیاں ہیں۔ [حوالہ درکار]
طلاق کا بیان
زوجہ کو زوجیت سے خارج کرنے کا نام طلاق ہے۔ اور چونکہ طلاق بڑا سخت معاملہ ہے۔ لہذا نہایت اچھی طرح اور ٹھنڈے دل سے سوچ سمجھ کر طلاق کا اقدام کیا جائے۔ پاک دامن عورت کے طلاق پرعرش الہی کانپ اٹھتا ہے۔ اور خداوند عالم کے نزدیک حلال امور میں طلاق سے زیادہ ناگوار کوئی چیز نہیں ہے جب زن و شوہر کی نااتفاقی و ناچاقی بالکل اصلاح کے قابل نہ رہے۔ اور بجز علیحدگی کے اور کوئی چارہ کار نہ ہو تو طلاق ضروری ہو جاتی ہے۔ اور خصوصا جب کہ عورت اپنی علیحدگی کے لیے جائز خواہش بھی رکھتی ہو تو شوہر کا طلاق پر آمادہ نہ ہونا ظلم عظیم اور عورت کے لیے بڑی مصیبت ہے۔[2]
شرائط طلاق
دو عادل افراد کے سامنے طلاق کے صیغے طلاق دینے کے لیے جاری کرے۔
صرف عربی زبان میں طلاق دی جا سکتی ہے۔
طلاق صرف اور صرف “طالق“ کے لفظ سے دی جاسکتی ہے۔
اختیار اور ارادے کے ساتھ اپنے فیصلے سے طلاق دے۔
عورت کی پاکی کی حالت میں طلاق دے۔
عورت کے ساتھ اس پاکی میں اس کے ساتھ ہمبستری نہ کی ہو۔ [حوالہ درکار]
پہلی تقسیم بندی
طلاق رجعی
رجعی طلاق وہ ہے جس میں عدت ہوتی ہے اور عدت کے دوران شوہر اپنی طلاق کو کالعدم قرار دے کر رجوع کر سکتا ہے۔
طلاق بائن اس میں شوہر کو حق رجوع نہیں ہوتا۔ اس کی کئی صورتیں ہیں۔
اشتراک کریں
تبصرے
اس بلاگ سے مقبول پوسٹس
زبردستی کی طلاق کا بیان
جنوری 29, 2023
واضح رہے کہ اگر زور زبردستی سے مراد اکراہِ شرعی ہے یعنی جان سے مارنے یا کسی عضو کے تلف کرنے کی دھمکی دے کر طلاق دینے پر مجبور کیا گیا ہو اور اسے اس بات کا خوف بھی ہو کہ دھمکی دینے والا وہ کام کر سکتا ہے جو وہ بول رہا ہے تو اس صورت میں اگر شوہر نے زبان سے طلاق کے الفاظ کہہ دیے تو طلاق واقع ہوجائے گی، لیکن اگر زبان سے طلاق کے الفاظ نہیں کہے بلکہ صرف طلاق کے الفاظ لکھے یا لکھے ہوئے طلاق نامے پر دستخط کیے تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔ لیکن اگر زور زبردستی سے مراد یہ ہے کہ لڑکی کے بھائی کے بہت زیادہ اصرار اور ضد کرنے، بار بار مطالبہ کرنے اور دباؤ کی وجہ سے تنگ آکر نہ چاہتے ہوئے طلاق دے دی یا لڑکی کے بھائی نے دھمکی دی اور شوہر نے ڈر کر طلاق نامہ لکھ دیا جب کہ لڑکی کے بھائی سے دھمکی پورا کرنے کا خوف نہ ہو تو اس صورت میں چاہے زبان سے کہا ہو یا طلاق کے الفاظ لکھے ہوں یا طلاق نامے پر صرف دستخط کیے ہوں تمام صورتوں میں طلاق واقع ہوجائے گی۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر شوہر نے طلاق نامہ ہونے کا علم ہونے کے باوجود اس پر دستخط کردیے تھے، (اور بیوی کے بھائی کا مجبور کرنا بھی دوسری قسم کا تھا
کریں
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں